۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
امام جمعہ نیو دہلی

حوزہ/بھارتی دارالحکومت میں شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ دلی کے امام حجت الاسلام و المسلمین سید محسن تقوی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سعودی عرب جیسے ممالک کی حمایت حاصل ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، لیکن رہبر معظم انقلاب اسلامی کی حمایت یقینا ہندوستانی حکومت پر اثر انداز ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ھندوستان کے دارالحکومت دہلی کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین سید محسن تقوی نے اپنے بیان میں کہا کہ رہبر معظم نے جن سخت الفاظ کے ساتھ حکومت ھندوستان متنبہ کیا ہے وہ کارگربھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی تھی۔

انہوں ںے کہا کہ رہبرمعظم نے اپنی رہبری اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں جو بیان دیا ہے اس کا اثر حکومت کے اوپر میں مرتب ہوگا اور ہندوستانی عوام بھی اس کا پرجوش استقبال کریں گے۔

امام جمعہ دہلی نے یہ کہتے ہوئے کہ متنازعہ شہریت بل کے متعلق شیعہ سنی اور بہت سارے دیگر مذاھب کے ماننے والے حتی ھندو بھی اس کالے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے تاکید کی کہ برادارن اسلام اس بات پر متفق ہیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ھندوستان کی شیعہ قوم اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ اس تحریک میں شامل ہے۔ یہ متنازعہ قانون دونوں کو متاثر کررہا ہے، دونوں کے حقوق کو ضائع کرنے والا ہے۔ لہذا ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ متنازعہ قانون کے خلاف جاری احتجاجات میں شیعہ بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور جاری رہے گا۔

انہوں یہ کہتے ہوئے کہ جب سے بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہندوستان کے روابط اسرائیل کے ساتھ مستحکم ہوئے ہیں کہا کہ جب نرسمہاراؤ ہندوستان کے وزیراعظم تھے، اس وقت اسرائیل کے ساتھ روابط قائم ہونا شروع ہوا تھا۔ لیکن روابط میں اتنی گرمجوشی نہیں تھی جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ بھارت کے بہت قریبی روابط ہوے ہیں۔

حجت الاسلام و المسلمین تقوی نے تاکیدا کہا کہ: جہاں تک امریکا کا سوال ہے ھندوستان کے امریکا سے تعلقات موجودہ حکومت سے پہلے بھی قائم تھے لیکن موجودہ حکومت امریکی حکام کے سامنے مکمل طورپر گٹھنے ٹیک چکی ہے اور امریکا کے اشاروں اور دباو میں بھارت سرکار کام کررہی ہے۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شہریت قانون کے متعلق احتجاجات پہلے سے چل رہے تھے، دوماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے کہا: یہ موجودہ حکومت کی پہلے سے سوچی سمجھی ہوئی سازش ہے اور اس طرح کی باتیں بی جے پی بہت عرصے سے کرتی رہی ہے، آج سے 20 سال پہلے سے اس طرح کی آوازیں تھیں کہ بنگلادیش سے آنے والے افراد جو سنہ 71 کی جنگ کے بعد اور جنگ کے دوران آئے ہیں، ان میں سے ہندوں کو شہریت دے دی جائے اور مسلمانوں کو بنگلادیش واپس کیا جائے یہ بات وہ بہت پہلے سے کہہ رہے تھے، لہذا اس سلسلے میں کسی دوسرے ملک کا کوئی رول نہیں ہے۔ ہاں یہ بات طے ہے کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والی ہربات کی اسرائیل اور امریکا حمایت کرتے ہیں۔

حجت الاسلام و المسلمین تقوی نے مزید کہا کہ جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے ہندوستان کا مسلمان سعودی عرب سے زیادہ پر امید نہیں ہے، عام تاثر لوگوں کے اذھان میں یہی ہے کہ سعودی عرب، امریکا سے الگ ہٹ کر کوئی پالیسی وضع نہیں کرسکتا، لیکن سی اے اے کے سلسلے میں او آئی سی نے جواسٹینڈ لیا اور اس قانون کی مذمت کی تو یہاں براداران اہل سنت میں اس چیز کا خیرمقدم کیا گیا۔ لہذا ھندوستانی مسلمانوں کو جنتی امید ایران سے ہے اتنی کسی دوسرے ملک سے نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایران کے وزارت خارجہ نے جو بیان دیا اس کا حکومت نے بھلے ہی کوئی زیادہ اثر نہ لیا ہو لیکن یہاں کے تمام مسلمان اس بیان سے خوش ہوئے ہیں کہا: رہبر معظم نے جن سخت الفاظ کے ساتھ ھندوستانی حکومت کو متنبہ کیا ہے وہ کارگر بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ رہبرمعظم نے اپنی رہبری اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں جو بیان دیا ہے اس کا اثر حکومت کے اوپر میں مرتب ہوگا اور ہندوستانی عوام بھی اس کا پرجوش استقبال کریں گے۔

دلی کے امام جمعہ نے کہا: ہندوستان میں موجودہ حکومت یعنی بی جے پی کے مسلمانوں کے سلسلے میں کبھی بھی اچھے خیالات نہیں رہے کہا کہ آج سے 20 ، 25 سال پہلے بی جے پی کی ملک میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر صرف دو سیٹیں تھی، بی جے پی کے گمراہ کن نعروں اور فریب کاریوں میں بہت سے مسلمان مبتلا ہوگئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ بی جے پی جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے وہ ہمارے لئے اتنی بری ثابت نہیں ہوگی۔ یہ غلط فہمی تھی کہ جو مودی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کو حقیقت کا علم ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک فسادات کو روکنے کا تعلق ہے، ہم اپنی دانشوری اور دانشمندی کے ذریعے فسادات کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں نفرت کی فضا کو روکنا ہوگا، ہمارے قائدین کو چاہئے کہ اپنی زبان صاف رکھیں اور احسن طریقے سے جدال کریں اور اپنے حقوق بات چیت کے ذریعے لینے کی کوشش کریں۔

اس ھندوستانی عالم دین نے کہا کہ ہمارا مخالف ہندو نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا مخالف ہندوستان میں ایک ہندو سیاسی گروپ ہے، ایک سیاسی حلقہ ہے، جو مسلمانوں کا دشمن ہے۔ بھارت میں عام ہندو پوری طرح سے فرقہ پرست نہیں ہے۔

انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ملک میں فضا کو خراب کرنے میں بعض مسلم سیاستدانو کا بھی اچھا خاصا رول ہے جو نہیں ہونا چاہئے کہا کہ بعض مسلم سیاستدانوں نے جس طرح کی زبان استعمال کی اس ایک غلط اثر ہنود پر پڑا اور ہنود نے ان بیانات کی وجہ سے مسلمانوں سے مخاصمت کا آغاز کیا۔ اگر ہم دانشمندی سے کام لیں تو بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں اور کسی بھی میدان میں بی جے پی اپنے آپ کو نہیں سنبھال پائے گی۔

ہندوستان کے مسلمان کو اسلامی جہموریہ ایران سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں

حجت الاسلام و المسلمین تقوی نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان کو اسلامی جہموریہ ایران سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں، ایران نے شہریت بل اور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف صحیح موقع پر بھارتی حکومت کو منتبہ کرنے کا کام جو انجام دیا ہے۔ اس بات کو ہمارے اہل سنت بھائی بھی محسوس کررہے ہیں، اور شیعوں کے اندر تو یہ بات پہلے سے واضح ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی تمام مسلمانوں نے بغیرکسی اختلاف کے خیرمقدم اورتائید کی ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کو علم ہے کہ اسلامی مفاد کو دیکھ اپنا موقف بیان کرنے والی حکومت اگر مسلم حکومتوں میں کوئی ہے تو وہ صرف ایران ہی ہے جو امت مسلمہ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتا ہے۔ لہذا براداران اسلام کے ایران کے بارے میں جو توقعات ہیں وہ بے جا نہیں ہیں۔ صرف گنے چنے افراد جن میں بعض علما بھی شامل ہیں انہوں نے ان بیانات سے بیزاری کا اظہار کیا ہے یہ ان کی اپنی سیاسی مصلحت ہوسکتی ہے۔

دہلی کے امام جمعہ نے یہ کہتے ہوئے کہ پارلیمنٹ میں بی پی جے اراکین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قانون پاس تو ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر اس قانون کو لاگو کرنا بی جے پی کے لئے اتنا آسان نہیں کہا کہ ریاست آسام میں غیرملکی افراد کی تشخیص کا مرحلہ شروع ہونے پہلے کہا جارہا تھا کہ بنگلادیش کے دو کروڑ مسلمان بھارت میں موجود ہیں ان میں سے ایک کروڑ آسام میں ہیں۔ ان کے تمام کے تمام آرا باطل ہوئے اور آسام میں صرف 19لاکھ افراد اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں ہندو بھی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ھندوستانی شہری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اگر یہ قانون پورے ھندوستان میں لاگو ہوگا تو کم سے کم 15 کروڑ عوام اپنے آپ کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ وہ یہ سب کرسکے۔ صرف آسام میں سولہ سو کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے تو پورے ملک میں کتنے پیسے درکار ہوں گے۔

حجت الاسلام و المسلمین تقوی نے بیان کیا کہ اس قانون سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی متاثر ہوگا خاص کر وہ لوگ جو جنگلات میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کے تمام دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ یہ قانون پورے ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور ممکن ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .